By Zafarul-Islam Khan
Editor, The Milli Gazette

During the 17 years of our existence, The Milli Gazette has faced many threats and challenges. I myself have received numerous death threats. MG’s continued losses, dwindling subscriptions due to our own website and a disinterest by the community too have been our problems which forced us twice to think of closing down MG though on second and third thoughts we refrained from taking such a drastic step knowing very well that, however feeble, our community needs this voice in English more than at any time in the past and this voice mattered not only in India but across the world.

Now, since 12 March this year, we are facing an existential threat from the Modi government following our publication of a report on discrimination against Muslims in the Ayush ministry recruitments based on an RTI reply which the said ministry denied. It could have sent a rejoinder or, at worst, could have complained to the concerned regulatory authority, the Press Council of India in case we refused to publish its rejoinder. We were all-along ready to publish a rejoinder, statement or clarification should the ministry send it to us. Instead, it chose to file a police complaint. As a result, the journalist (Pushp Sharma), who wrote that story, was mercilessly interrogated for days and later arrested and jailed for around two weeks. Now he is out on bail while the case takes its normal slow course in courts.

Soon, on 21 April, the Press Council of India took suo motu cognizance and opened a case against The Milli Gazette. This action was unprecedented as an authority supposedly created to protect the freedom of Press, was in fact throttling that same cherished freedom. We have replied to PCI’s letter and the case continues. Our next hearing at the PCI is on 12 July.
A third bolt came from the Delhi Police (directly controlled by the Union Home Ministry) when DCP Licensing wrote to us on 30 May as to why our newspaper declaration should not be cancelled. Cancellation of the declaration means the newspaper will become illegal. We replied without fail to this show-cause notice and are still waiting for further clarifications from the DCP Licensing despite the passage of over three weeks on our hand-delivered reply.

All these drastic steps were taken to deal with an ordinary report which could have been tackled through a press statement like the one CBI issued on 15 June this year describing a Times of India report about CBI’s soft-pedalling over the Vyapam scandal. The CBI issued a press statement the same day saying the report is “speculative & presumptuous and hence, is strongly denied.” Strong words indeed, but we are not aware if CBI, PCI or DCP Licensing have sprung into action against the Times of India. Do we have two standards: one for small publications and another for big giants?

This three-pronged attack on MG simply shows the desperation of the Modi government to silence this little nagging bird. We are fighting and will continue to fight against this injustice through all legal venues open to us. But should the Modi Govt succeed in silencing this feeble voice, we will call it a day and will leave it to history to remember this as yet another colossal injustice to the freedom of Press the like of which was inflicted by the colonial rulers on Maulana Azad’s Al-Balagh and Muhammad Ali’s Hamdard and Comrade.

[end]

مودی حکومت ملّی گزٹ کو بند کرنے کے درپے ہے
از ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
ایڈیٹر ملی گزٹ

ملی گزٹ نے اپنی ۱۷سالہ زندگی میں بہت سی دھمکیوں اور چیلنجز کا سامنا کیا ہے۔ مجھے خود کئی مرتبہ جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی ہیں۔ ملی گزٹ کی ویب سائٹ کی وجہ سے اسکے سالانہ اشتراکات میں کمی آنااور اس اخبار میں ہماری قوم کی دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے اسکا مستقل خسارے میں رہنا بھی ہماری مشکلات رہی ہیں جنکی وجہ سے ہمیں مجبوراً دو مرتبہ اسکو بند کرنے کے بارے میں سوچنا پڑا، حالانکہ ٹھنڈے دل سے غور کرنے پر ہمیں دونوں باراس سخت قدم سے گریزکرنا پڑا کیونکہ ہم اس بات کو بخوبی سمجھتے تھے کہ انگریزی میں ہماری قوم کی اس آواز کو ماضی کے کسی زمانے کی بہ نسبت آج نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دنیا میں زیادہ ضرورت ہے۔

اور اب اس سال ۱۲ مارچ سے ایک آر ٹی آئی کے جواب میں وزارت آیوش میں تقرری کے سلسلے میں مسلمانوں کے خلاف تفریق برتنے پر ایک رپورٹ شائع کرنے کے بعد سے ہمیں مودی حکومت سے اپنے وجود کے بارے میں بھی خطرہ محسوس ہونے لگاہے۔ اس وزارت نے مذکورہ رپورٹ کی صحت سے انکار کیا لیکن اگر اس وزارت نے اس رپورٹ پر ہمیں اپنا جواب بھیج دیا ہوتا یا اگر ہم نے اس کے جواب یا وضاحتی بیان کو نہ چھاپا ہوتا یا چھاپنے سے انکار کیا ہوتا تو اسے حق حاصل تھا کہ وہ پریس کاؤنسل آف انڈیا میں ہمارے خلاف شکایت درج کرائے۔لیکن وزارت آیوش نے اس کے خلاف پولیس میں شکایت کر دی جس کی وجہ سے ہمارے نامہ نگار(پشپ شرما) سے پولیس نے کئی دنوں تک سختی کے ساتھ نہ صرف سوال جواب کیا بلکہ بعد میں اسے گرفتار کرکے تقریبا دو ہفتے تک جیل میں رکھا۔ حالانکہ اب انھیں ضمانت پر رہا کرالیا گیا ہے لیکن مقدمہ عدالت میں حسب معمول سُست رفتار سے چلتارہے گا۔

اس کے بعدجلدہی، یعنی ۲۱ اپریل کو، پریس کاؤنسل آف انڈیا نے ملی گزٹ کے خلاف از خو د(سوو موٹو) کیس درج کیا جسکی شاید ماضی میں کو ئی نظیر نہیں ہے۔ وہ ادارہ جو بظاہر آزادیِ تحریر کی حفاظت کے لئے قائم کیا گیا ہے اب وہ خود اس آزادی کا گلا گھونٹنے کے درپے ہو گیاہے۔بہر حال ہم نے پریس کاؤنسل آف انڈیا (PCI) کے نوٹس کا جواب دے دیا ہے اور اگلی ۱۲ جولائی کو اس کیس میں ہماری پہلی پیشی  ہونی ہے۔

تیسرا جھٹکا ہمیں دلی پولیس سے لگا (جو براہ راست مرکزی وزرات داخلہ کے کنٹرول میں ہے) جب ڈی سی پی لائسنسنگ نے ۳۰ مئی کو ہمیں ’’وجہ بتاؤنوٹس‘‘ بھیج کرہم سے پوچھا کہ ہمارا پریس اعلا نیہ Press Declaration یعنی اخبار چھاپنے کا لائسنس کیوں نہ منسوخ کر دیا جائے؟ ہم نے اس ’وجہ بتاؤ‘ نوٹس کا جواب فوراً دیدیا ہے لیکن تین ہفتے سے زیادہ  وقت  گذرجانے کے بعد بھی ڈی سی پی لائسنسنگ کے دفتر سے مزید مطلوبہ وضاحت کا ہمیں ابھی تک انتظار ہے۔

یہ تمام سخت اقدامات ایک معمولی سی رپورٹ پر کئے گئے ہیں جسکو سی بی آئی کے ۱۵ جون ۲۰۱۶ کے پریس بیان کی طرح حل کیا جاسکتا تھا جو اس نے ٹائمز آف انڈیا اخبار کی اسی دن کی رپورٹ کے بارے میں جاری کیا ہے جس میں ویاپم گھوٹالہ کے بارے میں سی بی آئی کی سُست رفتاری اورنرم طریقہ کو بیان کیا گیا تھا۔ سی بی آئی نے اُسی دن ایک پریس بیان جاری کیا جسمیں ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کو’’ خیالی ‘‘اور ’’حد سے متجاوز‘‘ قرار دیتے ہوئے اس رپورٹ کا’’سختی سے انکار‘‘ کیا تھا۔ اسمیں کوئی شک نہیں ہے کہ سی بی آئی کایہ بیان انتہائی سخت تھا لیکن ہمیں اسکے بارے میں کچھ اطلاع نہیں کہ سی بی آئی، پریس کاؤنسل یا ڈی سی پی لائسنسنگمیں سے کسی نے ٹائمز آف انڈیاکے خلاف کوئی کارروائی کی ہو۔کیا یہاں دو پیمانوں کا استعمال نہیں کیا جارہا ہے یعنی ایک پیمانہ چھوٹے اخباروں کے لئے اور دوسرا دیوقامت اخباروں کے لئے؟

ملی گزٹ کے خلاف یہ تین طرفہ حملہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مودی حکومت نے ایک چھوٹے سے اخبار کو خاموش کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس نا انصافی کے خلاف تمام قانونی وسائل کے ذریعہ، جو ہمیں دستیاب ہیں، ہم لڑ رہے ہیں اور لڑتے رہیں گے۔ لیکن اگر مودی حکومت ہماری اس کمزور آواز کو خاموش کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے توہم کوئی دوسرا پرچہ نہیں نکالیں گے بلکہ اس ظلم کو تاریخ کے حوالے کر دیں گے تاکہ اسے آزادیِ تحریر کے ساتھ ایک عظیم ناانصافی کے طور پر یادکیا جائے جیساکہ انگریز حکمرانوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کے البلاغ اور محمد علی جوہر کے ہمدرد اور کامریڈ کے ساتھ کیا تھا۔

)ختم)